۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا جاوید مصطفوی

حوزہ/امام حسن ؑ کا محاسن الاعمال اور مکارم اخلاق جو  ہوبہو سیرت نبی اکرمؐ تھا جس کے ذریعہ سے لوگوں کو دعوت الہیہ دیتے اور جسے دیکھ کر مرد شامی نے کہا  "اشھد انک خلیفۃ اللہ فی ارضہ، االلہ اعلم حیث یجعل رسالتہ۔

حوزہ نیوز ایجنسی| معصومین علیہم السلام کی یا ان میں سے کسی فرد کی سیرت طیبہ و ان کے اخلاق اور اوصاف حسنہ پر قلم فرسائی کرنا پیمائش آب دریا کی حیثیت رکھتا ہے جو طاقت بشری سے بالاتر ہے مگر مضمون کو مزین کرنے کے لئے مختصر ہی صحیح لیکن ضروری ہے۔

 آب در یا را گر نتوان کشید
ہم بقدر تشنگی باید چشید

جب بھی سیر طیبہ و اخلاق و اوصاف حمیدہ، جس کو بغیر قید ِمذھب ملت ہر بشر قبول کرنے اور اپنانےکو تیار رہتا،کا ذکر آتا ہے تو ذھن  میں جو   سب سے پہلے  خاکہ ابھر کر سامنے آتا ہے وہ  نمونہ اخلاق،پیامبر پاک، حضرت محمد مصطفیﷺ کا ہے جس کے لئے خداوند عالم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: " انک لعلیٰ خلق عظیم" بیشک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں یعنی آپ آداب قرآنی سے مزین اورا خلاق ِالہیہ سے متصف ہیں اور کیوں نہ ہو مکارم اخلاق  میں پائی جانے والی ہر صفت ، امانت و دیانت ،عدل و عدالت، عفو و درگذر،  تواضع و انکساری ،حلم وبردباری ،جود وسخاوت ،بہادری و شجاعت، کو آپ نے ہی کو خلق عظیم بنایا اور آپ ہی کے اخلاق حسنہ کی بدولت ارض عرب پر مردہ و بے جان انسانیت زندہ ہوئی، خونی و جانی دشمن کو پتھر و کانٹے کے عوض میں پھولوں کا گلدستہ دیا، نفرت کی آندھیوں میں محبت و الفت کا دِیا جلایا، تفرقہ بازی و عداوت کو بھائی چارگی میں تبدیل کیا ،آپ ﷺکی کرم فرمائی کا قیام یہی پر نہیں  ہوا بلکہ جب دس ہزار لشکر کے ہمراہ فاتحانہ شان سے مکہ میں  وارد  ہوئے در حالا اصحاب جذبہ انتقام سے پر "الیوم یوم الملحمۃ" کا نعرہ بلند کر رہے تھے یعنی آج بدلہ کا دن ہے آج جوش انتقام سرد کرنے کا دن  اور گذشتہ مظالم کی آگ کو ان کے لہو سے بجھانے کا دن ہے 
لیکن مکہ کے زمین وآسمان شاہد ہیں کہ آپﷺ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ رحمت  اللعالمین نے سب کو  اپنی آٖغوش رحمت میں سمیٹ لیا اور لوگوں کے کانوں میں" لا تثریب علیکم الیوم و اذھبوا انتم الطلقہ" کہ جاؤ تم سب آزاد ہو تم لوگوں سے آج کسی قسم کا  انتقام نہیں لیا جائیگا کی صدائیں گونج نے لگی یہ تھا مصداق خلق عظیم کا  اخلاقِ کریمانہ جس کی مثال خلائق لانے سے عاجز ہے۔

۲۸صفر؁۱۱ھ کو یہ سلسلہ رحمت و کرامت ختم ہو  جاتا  اگر آپ ﷺ  کے بعد  بارہ جانشین برحق نہ ہوتے جنھوں نے رات کی تاریکی میں  تن تنہا   روٹیوں کے   بار اپنی پشت پر رکھ  کر  غریب ومزدور ں کی  حاجت روائی  ہی نہ کی  بلکہ بسا اوقات اپنے چہروں کو چھپا لیا اور  کہا کہ میرے پاس اتنا کم ہے کہ دیتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی ہے ، اللہ اکبر۔
انہی  بارہ جانشین برحق  میں سے ایک فرد کا نام حسنؑ بن علیؑ   ہے جنھیں   عفو  ودر گذر، بخشش و عنایات کے سبب کریم ِ اہلبیتؑ کہا جاتا ہے۔ 

امام حسنؑ ا ور سخاوت 

آپ نے آپنی ۴۸ سالہ زندگی میں ۲۵ حج پیادہ کئے اور ۲ مرتبہ اپنا سارا مال اس طرح راہ خدا میں تقسیم کیا کہ آدھا اپنے پاس رکھا اور آدھا  فقراء و مساکین میں دے دیا اور یہاں تک کہ ۳ مرتبہ جائداد کا نصف حصہ غریبوں میں تقسیم کیا( انساب الاشراف ج۳،ص۹)

جب بھی کسی نے آپ کی بےحساب  عطا و بخشش کے بارے میں سوال کیا کہ  آپ کبھی سائل   کومحروم واپس نہیں کرتے ؟ تو آپ جواب میں فرماتے تھے کہ میں خدا سے مانگنے والا ہوں، اس نے مجھے دینے کی عادات ڈال رکھی ہے اور میں نے لوگوں کو  دینے کی عادت ڈال رکھی ہے میں ڈرتا ہوں کہ اگر اپنی عادت بدل دو ں تو کہیں خدا بھی نہ اپنی عادت بدل دے اور مجھے بھی محروم کردے(نورالابصارص۱۲۳) 
اور اسی طرح شیخ رضی الدین بن یوسف بن مطہر حلی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص امام حسنؑ کی خدمت میں حاضر ہوا  اور عرض کیا: اے فرزند امیرالمومینؑ آپ کو اس خدا کی قسم جس نے آپ کو بےشمار نعمتوں سے نوازا ہے، میری فریاد رسی کیجئے اور مجھے دشمن کے ہاتھ سے نجات دیجئے کیونکہ میرا دشمن وہ ستمگر ہےجو بڑے بوڑھوں کا احترام و خیال نہیں رکھتا اور چھوٹوں پر رحم نہیں کھاتا، حضرت اس وقت تکیہ لگائے بیٹھے تھے جب یہ سنا تو سیدھے ہوکر  بیٹھ گئےاور فرمایا  بتاؤ وہ دشمن تمہارا کون ہے تاکہ اس سے تمہارا بدلہ لوں تو وہ کہنے لگا میرا دشمن فقرو فاقہ و پریشان حالی ہے ، حضرتؑ نے کچھ دیر کے لئے سر کو جھکا لیا پھر سر اٹھا کر اپنے خادم کو بلایا اور اس سے فرمایا: جتنا مال تمہارے پاس موجود ہو وہ لے آؤ، وہ خادم پانچ ہزار درہم لے آیا، امام نے پورا مال اس شخص کو دے کر فرمایا: اب جب بھی تمہارا دشمن تمہاری طرف رخ کرے اور ظلم و ستم کرے تو اس کی شکایت میرے پاس لے آنا تاکہ میں اس کو دفع کروں( منتہی الاامال۲۸۱)

اور ساتھ ہی دست سوال دراز کرنے کے مناسب اوقات کی بھی تعلیم دی ،"یا ھذا ان المسألۃ لا تحل الا احدیٰ  ثلاث:دم مفجع اودین مقرح اوفقر مقدح" (بحار الانوار ،ج ۴۳  ص ۳۲۳) اے شخص  تین مقاموں  میں  سے کوئی  ایک  مقام پیش آئے تو ہاتھ پھیلانا مناسب ہے۔
۱ ۔جان کا خطرہ ہو
۲۔ جان لیواقرض ہو 
۳۔ایسی فقر و تنگ دستی  ہو جو ا نسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔

امام حسن ؑاور حلم  و بردباری 

یقینا جو الہیٰ نمائندہ ہوتا ہے اس کے ساتھ زندگی گزارنا  آسان ہوجاتا ہے کیوں کہ اس کا دل ذکر خدا سے نرم ہو تا ہے  اور اسی ذکر کے ذریعہ سے نرم کیا جا سکتا ہے جس کا نمونہ آپ کی حیاتِ طیبہ میں اس وقت ملتا جب ایک غلام خیانت کرتا ہے اور آپ سزا دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ غلام برجستہ قرآن کی آیت پڑھتا ہے "والکاظمین الغیظ" اے غصہ کو پی جانے والے، ا،امام  فورا غصہ کو ضبط کرتے ہیں پھر وہ آیت کے دوسرے جز کو پڑتا ہے "والعافین عن الناس" اور لوگوں کو معاف کرنے والے، آپؑ فرماتے ہیں جا میں نے تجھ کومعاف کر دیا اس نے آیت کے  ایک اور جز کو پڑھا"واللہ یحب المحسنین" (آل عمران۱۳۴) اور خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے  آپ نے کہا  جا تجھے میں نے  آزاد کیا اور جو تجھے دیا کرتا تھا اس سے دوگنا  تیرے لئے مقرر کیا(منتہی الآمال۲۸۲)ع
آپؑ کی بردباری زبان زد خاص عام تھی جس کی وجہ سے آپ کو حلیم کہا جاتا  تھا حتی ٰ کہ آپ کا سخت ترین دشمن  مروان بن حکم  جس نے آپ کو پیغبر پاک ﷺ کے پہلو میں دفن نہ ہونے دیا مگر آپ کی تشییع  جنازہ میں شرکت کی اور کاندھا دیا، جب اس سے پوچھا گیا کہ تونے ایسا کیوں کیا ؟ جب کہ تونے  تو ان کو بہت اذیتیں دی،تو اس نے  آپ کی حلم و بردباری کا کلمہ پڑھا اور کہا اس مرد کی بردباری  پہاڑ کے  مثل تھی( انساب الاشراف،ج۳،ص۶۷) 

یہ ہے امام حسن ؑ کا محاسن الاعمال اور مکارم اخلاق جو  ہوبہو سیرت نبی اکرمؐ تھا جس کے ذریعہ سے لوگوں کو دعوت الہیہ دیتے اور جسے دیکھ کر مرد شامی نے کہا  "اشھد انک خلیفۃ اللہ فی ارضہ، االلہ اعلم حیث یجعل رسالتہ"( انعام ۱۲۴)ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتاہےکہ اپنی رسالت کو کہا ں رکھے،
بیشک ہم سچے اور حقیقی  محب و مسلمان تب ہی کہلوا سکتے ہیں جب  آپ کی سیرت پر چل کر عبادات و اعتقادات کے ساتھ ساتھ تمام اخلاقی اقدار کی محافظت کریں۔

تحریر: سید جاوید عباس مصطفوی مقیم قم
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                          

تبصرہ ارسال

You are replying to: .